امید

من حیثیت القوم ھم خاصے بے حس ہو چکے ہیں مگر اسی بے حسی کے اندھیرے میں میں کبھی کنھی امید کی کوئی ننھنی سی کرن نظر آ جاتی ہے اور ہمیں یہ احساس دلا جاتی ہے کہ ہم ابھی زندہ ہیں۔

ایسا ہی اک چھوٹا سا تجربہ آج میرے ساتھ بھی ہوا دوپہر کی دھوپ میں، میں اپنے آفس جا رہی تھی کہ میں نے کلفٹن کے چوراہے پر بہت سے بچے بچیوں کو  سیلاب کے لئے چندہ جمع کرتے ہوئے دیکھا اچھا لگا، گرمی اور روزے کے باوجود وہ گاڑیاں روک روک کر چندہ جمع کر رہے تھے۔

افطار سے کچھ پہلے میرے واپسی ہوئی  تو دیکھا دوسرے چوراہے پر اور بہت سے نوجوان بچے بچیاں موجود ہیں اور چوراہے کے جانب آنے والی چار سڑکوں پر گاڑیاں روک روک کر چندہ جمع کر رہی ہیں میں نے گاڑی اک طرف کی اور اک بچے سے پوچھا تم لوگ کس کالج سے ہو اور کیا کر رہیے ہو- اس نے کالج کا نام بتایا زیبسٹ اور کہا ہم سیلاب فنڈ کے لئے چندہ جمع کر رہے،

نہ جانے کیوں میرے آنکھوں میں پانی سا آ گیا مجھے لگا جب ہماری قوم کے بچے جاگ گئے ہیں اور وہ ٹی وی اسکرینوں کے سامنے سے اٹھ گئے ہیں اب واقعی انہیں سیلاب کی شدت کا اندازہ ہو چکا ہے اب یقینا  ہم اس مصیبت کے دور سے بھی گزر جائیں گے اور اس سیلاب کو مشکل ہی سے سہی مگر پار کر جائیں  گے-

Published in: on اگست 18, 2010 at 9:57 شام  تبصرہ کریں  
Tags: , , , ,