اک اور ماں جو اب نہ رہی

وہ میری ماں تھیں مگر میں ان کی بیٹی نہیں بہو تھی مگر ان کا اس دنیا سے جانا اتنا ہی تکلیف دہ تھا جتنا میری اپنی ماں کا، بلکہ شاید زیادہ ہی۔ میری اپنی ماں ایک شام اچانک ہی اس دنیا سے چلی گئی تھیں مگر اپنے جانے کی تیاری وہ ڈھائی سال پھلے میرے ابا کی وفات کے بعد سے ہی کر رہی تھیں جب ابا گئے تو امی نے اچانک ہی بہت ہی بہت سے رکے ہوئے غیر ضروری اور ضروری کام کرنا شروع کر دئیے مثلا دروازے کی گرل ، قالین کا انڈر لے ، کپڑوں کی شاپنگ-

اس وقت وہ تمام کام نہایت بے معنی لگے ہم ان پر غصہ بھی ہوتے تو وہ کہتی میرے پاس وقت کم ہے- اور پھر ٹھیک ڈھائی سال بعد وہ اک دن اچانک ہمیشہ کے لیے  چلی گئیں-

ان کوئی طوہل بیماری نہ ہی کچھ اور چونکہ میں آفس جاتی تھی اس لیے  میرے بچے ان ہی کے پاس ہوا کرتے تھے لیکن ان کے وفات کے ایک ہفتہ کے اندر اندر یہ احساس ہو گیا کہ صرف ماں کہ وہ مرکز ہوتی ہے جو  تمام رشتوں کو جوڑ کر رکھتی ہے- کیا بھائی کیا بہن، خالہ ماموں، جاجا۔۔۔۔۔۔۔ ماں نا ہو تو کوئی رشتہ ویسا نہیں رہیتا- رہیتا بھی ہے تو ہلکا، بے وزن اور نام کا-
ماں کے ایک ھفتہ کے بعد ہی میرے بچوں نے اپنے گھر میں اکیلا رھنا سیکھنا شروع کردیا اس وقت ان کی عمریں صرف آٹھ اور پانچ سال تھیں مگر مجھے فخر ہے کے پچھلے سولہ سترہ سالوں سے وہ یہ کام باآسانی کر ریے ہیں

لیکن ان تمام سالوں میں جو دوسرہ رشتہ مضبوط ہوا وہ میرے لیے ساس/ماں کا اور بچوںکے لئے دادی کا  تھا-  ان کی ہم نے اتنی خدمت بے شک نہیں کی مگر محبت ضرور کی- ان کی طویل بیماری،  لمحہ لمحہ موت سے لڑتے اور قریب جاتے دیکھنا وہ احساس تھا جو تکلیف سے پر تھا پچھلے کافی عرصے سے میں جب بھی ان سے ملی وہ بہت محبت سے ملی اور تقریبا ہر بار وہ میرے ماں باپ کو ہاد کرتی، اپنی پوتیوں کو دیکھ کر بے حد خوش ہو جاتیں بھت سی دعائیں دیتیں-
جب ٹھیک تھیں تو کہتی تھیں "بہن (میری امی) تے خوب صورت سی گی تو تے اودے ورگی نھیں” مگر ان آخری سالوں میں میں جملہ بدلتا کچھ عرصے پہلے کہنے لگیں "بہن بھت چنگی سی گی تیری ناک اناں دے ورگی اے” میں اس دن بھت خوش ہوئی مجھے لگا امی اب مجھے اب بہو سے بڑھ کر ماننے لگی ہیں- شدید بیماری میں بھی ہر ایک سے کہتی "چا پی لو اچھا  پانی پی لے”
وہ تھیں تو لگتا تھا اک گھر ایک ٹھکانا ایک مرکز ابھی موجود ہے کوئی ملے نہ ملے، بات کرے نہ کرے ماں تو ہے-
مگر ان کے جانے سے ہوں لگ رہا ہے اک بار پھر مرکز ختم ہو گیا- ایک گھر ختم ہو گیا-

اب نثار شام جلدی گھر آجائیں گے، اب بچے ویک اینڈ پر کس سے ملنے جائیں گے- اب عید پر ہم کس سے ملیں گے- اب میں عیدی کس سے لوں گی- اب ہمیں کسی کی فکر نھیں ہو گی-
-اب بچے اپنے امتحان اپنی خوشیوں سے پہلے اور بعد میں کسی بزرگ سے دعائیں نہیں لے سکیں گے-
ہم سب  آپس میں لڑیں گے تو اخلاقا بھی ملنا نھیں پڑے گا، اب سب اپنے اپنے گھروں میں اکیلے تنھا خوش (ناخوش) رہیں  گے-
اب میں تنہا ہونے کی کہانی پھر سے دیکھوں گی-
اک اور مرکز  جو ختم ہو گیا- –

Published in: on مئی 29, 2011 at 12:31 صبح  تبصرہ کریں  
Tags: